Showing posts with label Quotes Urdu. Show all posts
Showing posts with label Quotes Urdu. Show all posts







سربراہی یا غلامی طاقت کے ہونے یا نہ ہونے سے نہیں یہ آپ کی ذہنی صلاحیت پہ منحصر ہوتا ہے




It is based on your mental ability not to be headed or slavery











کسی کو مسلسل نظر انداز کرنے سے


مظبوط سے مظبوط تعلق بھی ٹوٹ جاتا ہے.




















میاں بیو ی 




عورت اور مرددونوں ایک دوسرے کی بنیادی ضرورت ہیں۔ اس دنیا میں عورت کے بغیر مرد اکیلا نہیں رہ سکتا اور نہ ہی ایک عورت مرد کے بغیر اکیلی رہ سکتی ہے۔ نکاح کی شکل میں میاں بیوی کا رشتہ وجود میں آتا ہے اور پھر اس رشتے سے نئی نسل کا آغاز ہوتا ہے ۔ دنیا میں انسانی زندگی کا آغازحضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کے رشتے سے ہوا ۔ مرد اور عورت اپنی شخصیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ تفریق دونوں کو ایک دوسرے سے ممتاز بناتی ہے۔ عورت مرد کی محتاج ہوتی ہے اس کو زندگی گزارنے کے لیے تحفظ اور سہارا چاہیے ہوتا ہے ۔ قدرت نے مرد کو سربراہ بنایا ہے وہ گھر کو لے کر چلتا ہے اور منطقی انجام تک پہنچاتا ہے ۔ جس طرح ٹرین کا انجن ڈبوں کو لے کر چلتا ہے اسی طرح گھر میں مرد ایک انجن کا کردار ادا کرتا ہے۔ 



میاں بیو ی کا رشتہ جہاں پر مرد اور عورت کے سکون اور اطمینان کا باعث ہوتا ہے وہیں اس رشتے میں بہت سے مسائل ہوتے ہیں۔ یہ مسائل ہرخطے کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔برصغیر میں زیادہ تر یہ مسائل کلچرل ہیں ۔ یہاں پر صرف مرد اور عورت کے درمیان رشتہ ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ دو خاندانوں کا رشتہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے میاں بیوی کے رشتے میں دخل اندازی بہت ہو تی ہے ۔اس کلچر کے جہاں پر بہت سے مثبت اثرات ہیں وہیں پر اس کے منفی اثرات بھی ہیں ۔ اس کلچر میں بعض لوگ رشتے کے لحاظ سے بہت قریب ہوتے ہیں لیکن احساس کے لحاظ سے بہت دور ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کا کردار میاں بیوی کے رشتے کی مضبوطی کا باعث بن رہا ہے یا خرابی کا باعث بن رہا ہے ۔ ایسے میں میاں بیوی سمجھداری دکھائیں اور حدود کا تعین کریں تو وہ مسائل پر قابو پاسکتے ہیں ۔ 


رشتے میں پائیداری کے لیے میاں بیوی کا ایک دوسرے کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ سمجھنے کا مو قع نہیں ملا حالانکہ چھ بچے ہو چکے ہوتے ہیں ۔ جس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اس کے لیے وقت نہیں یہ بہت غورطلب بات ہے۔ یہ کتنی ابنارمل بات ہے کہ ایک گاڑی جس کو ایک پیہ تو ٹریکٹر ر کا لگا ہو جبکہ دوسرا رکشے کا ۔ گاڑی کو نارمل رکھنے کے لیےضروری ہے کہ دونوں پیئے ایک جیسے ہوں ۔ میاں بیوی گاڑی کے دو پیئے ہوتے ہیں جب تک یہ دونوں ایک جیسے نہ ہوں گاڑی نہیں چلتی۔ ایک شوہرکے لیے سب سے بڑا رول ماڈل رسول اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی ہیں ۔ ایک بیوی کے لیے ایک آئیڈیل ماڈل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔ جس رشتے میں برداشت نہ ہو، صبر نہ ہو، احساس نہ ہو وہ رشتہ پائیدار نہیں ہوتا۔ ہرشخص اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور ان اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ ہی قبول کرنا پڑتا ہے ۔ 


ہاتھ اٹھانا ہی تشدد نہیں ہوتا شخصیت کے ٹکڑے کرنے کے لیے چند جملے ہی کافی ہوتے ہیں۔ بعض مرد کسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھی کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔ بعض مرد حضرات کی شخصیت مکمل پیکج ہو تی ہے وہ ایک ہی وقت میں خاوند ، ساس اور نند کا کردار اد ا کرتے ہیں ۔ ایسی شخصیت کے حامل مردوں کے نتائج بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ جو مرد بہت زیادہ غصے والے ہوتے ہیں وہ با ت بات پر روکتے ہیں ان میں کہیں نہ کہیں ان سیکورٹی پائی جاتی ہے۔ جو شخص اند ر سے کمزور ہو اس کو چھن جانے کا خوف ہوتا ہے ۔ وہ یہی سوچتا رہتا ہے کہ اگر میری بیوی مجھ سے چھن گئی تو میرا کیا بنے گا۔ ایسا شخص بار بار اپنی بیوی سے پوچھتارہتا ہے کہ کہاں گئی تھی ،کہاں جاری ہو ، کب آؤ گی وغیرہ وغیرہ ۔ کبھی کبھی اِ ن سیکور ہونا نارمل ہے لیکن ہر وقت اِ ن سیکور رہنا اس کی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ ایسے مرد حضرات کو کونسلنگ کروانی چاہیے۔ بعض عورتیں بھی ایسے مسائل پیدا کرتی ہیں جن کی وجہ سے نوبت لڑائی جھگڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ میاں بیوی کے جھگڑوں کی بنیاد دونوں طرف سے ہوتی ہیں کوئی ایک ذمہ دار نہیں ہوتا۔ دونوں کے اچھا ہونے سےخوشگوارفیملی بنتی ہے اور اچھی نسل تیار ہوتی ہے۔ رشتے جگہ دینے سے چلتے ہیں ۔ بحیثیت انسان ایک دوسرے کو گنجائش دینی چاہیے۔ اگر تعلق مضبوط ہوتو رشتے میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔


بچے کی حساسیت اسی وقت شروع ہو جاتی ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے ۔ اگر اس وقت ماں کی نفسیات ، موڈ،مزاج ، سکون ، صحت کے بارے میں لاپرواہی برتی جائے تو اس کا بچے کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑتا ہے ۔جو عورت حاملہ ہونے کے دوران نفسیاتی تشدد کا شکار ہو وہ مضبوط شخصیت کے حامل بچے کو جنم نہیں دے سکتی کیونکہ ما ں کی سوچ بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ یہود یوں کے ہاں ماں بننے والی عورت کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ان کو مخصوص خوارک اور میوہ جات دیئے جاتے ہیں۔مخصوص زبان استعمال کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچے دنیا کے دوسرے بچوں سے مختلف ہوتے ہیں۔وہ عورت جو پہلی بار ماں بن رہی ہو اس کے لیے کو گھر چلانا اور گھر والوں کو لے کر چلنا ایک امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ہمارے کلچر میں ان دنوں میں مائیں اپنی بیٹی کا ساتھ دیتی ہیں ۔ ہر شخص کو اپنی نسل سے محبت ہوتی ہے اگر اس محبت کا اظہار بیوی سے نہ کیاجائے تو وہ محبت اگلی نسل میں منتقل نہیں ہوتی ۔ نئی نسل میں محبت پیدا کرنے کی لیے ضروری ہے کہ پہلے اس سے محبت کی جائے جس نے نئی نسل کو جنم دینا ہے۔ 


یہ میاں بیوی کے جھگڑے ہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچوں کی شخصیت میں انجانا ڈر پیدا ہو جاتا ہے ۔ یہ میاں بیوی کے جھگڑے ہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے قابلیت کے باوجود بچوں کی شخصیت دب جاتی ہے۔ یہ میاں بیوی کے جھگڑے ہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچے چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ میاں بیوی کے جھگڑے ہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچے خاموش رہنے لگ جاتے ہیں۔ یہ میاں بیوی کے جھگڑے ہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچے اپنی بات دوسروں کو نہیں کہہ پاتے اور یہ میاں بیوی کے جھگڑے ہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچےجھوٹ بولنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اگر بچوں میں یہ باتیں نمایاں ہونی شروع ہو جائیں تو والدین کو چاہیے کہ وہ کسی کونسلر سے رابطہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کے کیا مسائل ہیں اور ان کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔ وہ والدین جو بہت زیادہ کامیاب ہیں ان کی کامیابی کسی کام کی نہیں ہے اگر وہ اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ اپنا تعلق بنائیں اور انہیں اپنا دوست بنائیں ۔ جب والدین بچوں کے دوست بنیں گے تو آنے والے وقت میں وہ ان کے بہترین دوست ہوں گے ۔ 


ا عتماد بہت بڑی چیز ہے۔جو شخص اعتماد کے قابل نہ ہو وہ شخص کسی کام کا نہیں ہوتا ۔ اگر کبھی اعتماد خراب ہونے لگے تو اس کو دور کرنا چاہیے۔ کسی قسم کا ابہام نہیں رکھنا چاہیے ۔ جب ابہام دور ہو جاتا ہے تو رشتے میں مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے۔ میاں بیوی کو سمجھنا چاہیے کہ ہم کہاں پر غلطیاں کر رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اندر خوبیاں پیدا کریں۔ انہیں چاہیے کہ اچھا گھرانہ بنانے کے لیے مقاصد طے کریں ۔ ان کے مدِ نظر یہ بات ہونی چاہیے کہ ہم نے معاشرے کی بہتری کےلیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ پورے معاشرے کا کلچر نہیں بدلہ جا سکتا لیکن ایک گھر کے کلچر کو بدلہ جا سکتا ہے۔ ایک گھرانے کو اچھی مثال بنایا جا سکتا ہے۔ اگر گھر مثالی بنایا جائے تو اس کا فائدہ معاشرے کو ضرور ہوتا ہے۔ اگر اچھی باتیں ہمارے گھر وں میں آجا ئیں تو بقول حضرت واصف علی واصفؒ "ہم معافی مانگنا شروع کر دیں تو ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں۔"